Adeeba Nazar

Add To collaction

غروبِ محبت کی کہانی -


میرے سامنے سب کچھ صاف ہو گیا،قدسیہ نے مجھے کوئی خبر نہیں سنائی تھی،اس نے ایک بات کی تھی… اپنی ہزاروں باتوں جیسی ایک بات… وہ دونوں اپنی اپنی ذات میں اس محبت کا اعلان کئے بیٹھے تھے یا ان میں باقاعدہ عہد و پیمان ہوئے تھے؟؟
”یہ وہ محبت تھی جو بن کہے ہی سمجھ لی جاتی ہے اپنی مان لی جاتی ہے یا وہ محبت تھی جس کی باقاعدہ بنیاد رکھی جاتی ہے؟“
اگر عفان باقاعدہ قدسیہ کو پرپوز کرتا تو یقینا قدسیہ مجھے سب سے پہلے بتاتی… اس کا مطلب یہ وہی محبت تھی جو وقت کے ساتھ ساتھ… پاس پاس رہتے ہوئے بھی باقاعدہ نہیں بنتی،جو ہوتی ضرور ہے لیکن دکھائی نہیں دیتی… جس کا بلند بانگ اعلان نہیں کیا جاتا کہ اس کی ضرورت نہیں ہوتی۔
”یہ وہ محبت تھی جو بہت نایاب تھی بہت خاص… ایک مقدس فریضہ…“
میرے پیٹ میں شدید درد اٹھا،قدسیہ کو کالج میں ہی چھوڑ کر میں گھر آ گئی،شدید ڈپریشن مجھے بے حال کر دیتا تھا،میری حالت مرگی کے مریض سی ہو گئی،آج سے پہلے میری یہ حالت اس وقت ہوئی تھی جب میرا میڈیکل کیلئے میرٹ نہیں بنا تھا،میں کئی بار بے ہوش ہوئی اور کئی بار ہوش میں آئی،سر درد سے میرا دماغ پھٹا جا رہا تھا۔
گھر میں داخل ہوتے ہی میں اپنا پیٹ پکڑ کر بیٹھ گئی اور انٹرنس ڈور کی دہلیز سے چند قدم دور فرش پر بیٹھ کر میں نے دھاڑیں مارنی شروع کر دی،ماما،نمرہ… گھر کے ملازم میری طرف لپکے…
یہ ڈپریشن کا دوسرا شدید دورہ تھا جو مجھے ہوا تھا،جب مسئلہ میرا میرٹ تھا تو مجھے معلوم تھا کہ مجھے کیا کرنا ہے اب مسئلہ عفان تھا تو مجھے نہیں معلوم تھا کہ مجھے کیا کرنا ہے،وہ میرا امتحان نہیں تھا جسے میں کڑی محنت سے پاس کر جاتی…
عفان حور کو چھوڑ کر قدسیہ کو اپنے ساتھ لے کر جا رہا تھا؟ وہ عفان ہے نا اور اس کیلئے خوب صورتی پلس پوائنٹ نہیں اور قدسیہ میں نیگیٹو پوائنٹ کبھی ہوگا نہیں۔
میرے اور عفان کے درمیان صرف دو سال تھے جو خطرناک صورت حال تک مجھے لے آئے تھے،یا وہ قدسیہ کا دوست نہ ہوتا یا وہ صرف ہم دونوں کا دوست ہی ہوتا… اور یا وہ میرے لئے ایک دوست سے زیادہ نہ ہوتا۔
رونے کیلئے میرے پاس آنسو بہت تھے وجہ بھی بہت بڑی تھی،ان دو سالوں نے قدسیہ کو عفان کے پلڑے میں ڈال دیا تھا۔ میرے خدشے حقیقت ہی ثابت ہوئے تھے۔
میں ہر رات کو عفان سے صبح ملنے کے خیال سے گزارتی تھی،میں اس اپنی زندگی کی اتنی بہت ساری راتیں اس کے بغیر کیسے گزارونگی؟
یہ تو سوچنا ہی بے کار تھا کہ مجھے یہ زندگی عفان کے بغیر گزارنی ہے،قدسیہ کا کیا ہے وہ تو کپڑے بھی اپنی ماما کی پسند کے پہن لیتی ہے۔
”قدسیہ کا کیا ہے“
###
دو دن بیمار رہ کر میں کالج آ گئی تو وہ دونوں ہی مجھے بہت مختلف لگے،ان کا بات کرنا،مسکرانا،مذاق کرنا،ایک ساتھ آمنے سامنے بیٹھنا،عفان کا قدسیہ کو نام لے کر پکارنا اور قدسیہ کا دھیمی مسکراہٹ سجا کر اُسے جواب دینا… اب تو میں ان دونوں کے اندر کی چھپی ہوئی کہانی کو جان ہی چکی تھی۔
”قدسیہ تمہارا وہ کزن کہا ں ہے جو تمہیں تنگ کرتا تھا؟“
عفان کی طرح شیراز کی باتیں بھی میں نے صرف سنی ہی تھیں ان میں کبھی دلچسپی نہیں لی تھی،قدسیہ اکثر اس کا ذکر کیا کرتی تھی۔ سکول کے وقت سے ہی شیراز اسے مختلف بہانوں سے تنگ کیا کرتا تھا،وہ اس کے تایا کا بیٹا تھا اور جب تک وہ دونوں ایک ہی گھر میں مشترکہ خاندان کی صورت میں رہے،قدسیہ کی اس کے ہاتھوں درگت بنتی رہی تھی۔
عفان کے سامنے اس طرح پوچھے جانے پر قدسیہ بری طرح سے بوکھلا گئی،میں نے اس کی بوکھلاہٹ کا مزا لیا،عفان چونک کر قدسیہ کی طرف دیکھنے لگا۔
”کون تنگ کرتا تھا تمہیں؟“
قدسیہ ایسے خاموش ہوتی جیسے بری پھنسی… ”میرا کزن ہے شیراز بہت شرارتی تھا… ایک بار سوتے میں میرے بال کاٹ دیئے تھے سامنے سے… پورے ایک سال میں سکارف سے اپنے بال چھپاتی رہی تھی۔
قدسیہ ہمیشہ غصے میں ہی شیراز کا ذکر کرتی تھی،قدسیہ کے غصیلے انداز پر عفان خوب ہنسا۔
”بچے ایسے ہی ہوتے ہیں… خاص کر لڑکے۔“
”وہ بڑا ہو کر بھی ایسا ہی ہے“ میں نے براہ راست عفان کو مخاطب کیا۔ وہ ابھی بھی اسے تنگ کرتا رہتا ہے لیکن کسی اور انداز سے۔“
”کسی اور انداز سے؟ عفان ہم دونوں کی طرف دیکھنے لگا۔“
”وہ تو پاگل ہے…“ قدسیہ عجلت میں بولی“ تم چھوڑو اس سب کو… تم میری یہ بکس ایشو کروا دو… مجھے آج ہی چاہئے۔
قدسیہ نے مجھے حیران کر دیا،اس نے کس شاندار انداز سے بات ختم کی… یعنی مقابلہ سخت تھا۔
”حوریہ پلیز! شیراز کا ذکر عفان کے سامنے نہ کرنا۔“
کیوں قدسیہ…؟
”اس کی حرکتیں اتنی الٹی سیدھی ہیں کہ خواہ مخواہ سننے والے کو کھٹکتی ہیں،دل میں بیٹھ جاتی ہیں۔“
”مجھے لگتا ہے شیراز تمہیں بہت پسند کرتا ہے۔“
”مجھے وہ زہر لگتا ہے۔“
”تمہارے تایا جان غالباً تم سے بہت پیار کرتے ہیں… اسی پیار کو حق سمجھ کر وہ تمہیں مانگ بھی سکتے ہیں۔“
”مانگ لیا تھا… میں نے انکار کر دیا۔“
”کب مانگا؟؟“
”تمہیں بتایا تو تھا حوریہ۔“

......................

   0
0 Comments